/* for 1st slide */
/* for 2nd slide */
/* for 3rd slide */
/* for 4th slide */

Thursday, September 27, 2018

خوشی کے بے شمار فائدے ہیں


Sunday, September 23, 2018

یہ روحانی دنیا ہے-سہیل وڑائچ

سہیل وڑائچ

یہ روحانی دنیا ہے


مادیت پر یقین رکھنے والوں سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ پاکستان ایک نئے روحانی سفر کا آغاز کر چکا ہے۔ یہ اسی روحانی سفر کی برکات ہیں کہ امریکہ جیسی بدمست طاقت خود ہی ہماری امداد بحال کرنے پر تیار ہو گئی ہے اور تو اور امریکی وزیر خارجہ پومپیو وزیراعظم عمران خان کے روحانی رعب میں اس قدر دب گئے کہ انہوں نے واپس جاتے ہی روکی ہوئی امداد بحال کرنے کا عندیہ دیدیا۔ سعودی عرب میں جس طرح ہمارے جیسے غریب اور مفلوک الحال ملک کے وزیراعظم کا استقبال کیا گیا وہ مادی دنیا کے ماننے والوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ شاہ سلمان اور سعودی شاہی خاندان نے وزیراعظم پاکستان کے چہرے پر روحانی عظمت اور طمانیت دیکھ کر دیدہ و دل فرش راہ کئے جبکہ ماضی میں ان کا رویہ نہ اس قدر احترام آمیز ہوتا تھا اور نہ ہی اس قدر گرمجوش۔ اور تو اور ہمارا ازلی دشمن بھارت بھی پاکستان میں روحانی تبدیلی سے اس قدر گھبرا گیا ہے کہ فوراً مذاکرات پر آمادگی ظاہر کردی پھر اسے غلطی کا احساس ہوا تو مذاکرات کی پیشکش واپس لی۔ بھارت مذاکرات کرے تب بھی ہماری فتح اور اگر نہ کرے تب بھی ہماری فتح۔اور تو اور ہمارے پرانے آقا برطانیہ نے لوٹی ہوئی دولت واپس کرنے کا معاہدہ کرلیا ہے۔ مرشدی قدرت اللہ شہاب نے بالکل درست فرمایا تھا کہ مادی دنیا سے خفیہ ایک روحانی قوت معاملات چلا رہی ہوتی ہے۔ قطب، ولی اور فقیر اس روحانی دنیا کے وارث ہیں۔ روحانی دنیا کے بہت سے لوگ عرصہ سے پیش گوئیاں کررہے تھے کہ پاکستان کی تقدیر بدلنے والی ہے۔ ابوالانیس صوفی برکت علی لدھیانوی آف سالار والا آن ریکارڈ یہ کہہ چکے تھے کہ پاکستان دنیا کی بڑی طاقت بنے گا اور دنیا بھر کے فیصلے پاکستان میں ہوا کرینگے۔ روحانی دنیا کے بے شمار لوگ یہ کہہ بھی رہے ہیں کہ وہ وقت آچکا ہے کہ جب دنیا بھر کے لوگ پاکستان نوکری لینے کیلئے آیا کریں گے اور پاکستان دنیا بھر کے فیصلے کیا کرے گا۔ کوئی مانے نہ مانے مگر سیاسی تبدیلی آنے سے پاکستان نئے روحانی دور میں داخل ہوگیا ہے

روحانی دنیا کے وابستگان کا یہ پختہ یقین ہے کہ قیام پاکستان کی مادی، سیاسی یا بین الاقوامی وجوہات ضرور ہونگی مگر دراصل پاکستان کا قیام ایک روحانی معجزہ تھا، جب بھی پاکستان پر کوئی مشکل پڑتی ہے تو روحانی دنیا سے کمک بھیجی جاتی ہے۔ 1965ء کی جنگ میں تو بے شمار لوگوں نے دیکھا کہ سبز پوش ہندوستانی طیاروں سے گرنے والے بم کیچ کر کے پانی میں پھینک دیتے تھے۔ پاکستان کا ایٹمی ملک بننا بھی ایک روحانی معجزہ تھا وگر نہ مادی طور پر کوئی اسلامی ملک ایٹم بم بنا سکتاہے؟ ہرگز نہیں.....
وزیراعظم عمران خان دل و جان سے روحانی دنیا اور اسکے اثرات پر یقین رکھتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ روحانیت کے بغیر مذہب کو سمجھنا مشکل ہے وہ روحانیت کی راہوں کے مسافر ہو چکے ہیں ایک سالک کی حیثیت سے وہ سنت نبویؐ کے اتباع کی کوشش کرتے ہیں۔ مرشدی قدرت اللہ شہاب ایک خط میں روحانیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’عرف عام میں روحانیت اس کیفیت کا نام ہے جو ایمان، تقویٰ اور توکل پر عمل پیرا ہونے سے پیدا ہوتی ہے، اس کیفیت کا مادیت سے کوئی تعلق نہیں (بحوالہ شہاب نگر، مرتبہ شیما مجید)۔
مادیت پرست تو نہیں مانتے، نہ مانیں۔ روحانیت پر یقین رکھنے والے البتہ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کا نظام روحانی طور پر چل رہا ہے اس خطے کے روحانی سربراہ خواجہ فرید الدین گنج شکرؒ آف پاک پتن ہیں۔ پاکستان میں عروج و زوال، تخت یا تختہ یا فتح و شکست انہی کے دستخطوں سے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی صدیوں سے اس خطے کے تمام روحانی خانوادے محرم کے دنوں میں پاک پتن آتے اور قیام کرتے ہیں۔ بہشتی دروازہ کھلنے اور عرس کے ایام میں اس دربار کے فیوض و برکات سے استفادہ کرتے ہیں، روحانی دنیا کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بابا فریدؒ نہ صرف اس خطے کے روحانی فیصلے کرتے ہیں بلکہ مادی دنیا کے فیصلے بھی ان کے دربار ہی میں ہوتے ہیں۔ اسی لئے کہا جارہا ہے کہ عمران خان کو وزیراعظم بنانے پر مہر تصدیق اسی دربار سے ثبت ہوئی ہے۔
روحانیت کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ عمران خان پر روحانی نظر کرم تو ورلڈ کپ کی فتح سے پہلے ہی شروع ہوگئی تھی۔ ان کے توکل، فقر اور روحانیت کی کھوج نے انہیں اس راہ پر چلنے کے لئے مقبول بنا دیا اور بالآخر ان کی قبولیت بھی ہوگئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ عمران کی روحانی خوبیوں نے اس کی دنیاوی آلائشوں کی صفائی شروع کردی۔ خدا سے لو لگانے کی خواہش رکھنے والوں کی غیبی امداد ہوتی ہے اور اس امداد کا براہ راست آغاز بشریٰ بی بی سے ان کے روحانی تعلق پر ہوا۔ بشریٰ بی بی بابا فریدؒ کی تعلیمات کی سالک و مرید ہیں۔ جب بشریٰ بی بی کا دل خود پھرا تو ان کی روح میں ایمان کی روشنی سرایت کرگئی، ان کا باطن روشن ہوگیا۔ دنیا انہیں کاٹ کھانے کو دوڑنے لگی تو وہ جوتے اتار کر ننگے پائوں لاہور سے پیدل ہی پاک پتن روانہ ہوگئیں۔ وارفتگی کے اس ایک ہی سفر نے روحانیت کے دروازے ان پر وا کردیئے، ان کی دعا میں تاثیر پیدا ہوگئی اور ان کی ہدایت میں روحانیت در آئی۔ ایسے ہی قبولیت کے لمحوں میں عمران خان کی وزارت عظمیٰ کی دعا بھی درجہ قبولیت اختیار کرگئی۔ بشریٰ بی بی نے روحانیت کی سچائی کا ثبوت یوں بھی دیا کہ انتخابات سے پہلے ہی کہہ دیا کہ میں خوشخبری بن کر عمران کے پاس آئی ہوں، یہی اگلا وزیراعظم بنے گا اور ساتھ ہی ساتھ بتا دیا کہ پی ٹی آئی 116 نشستیں حاصل کرے گی۔ خدا کی کرنی دیکھئے۔ جو بشریٰ عمران نے کہا تھا وہ ہوبہو پورا ہوا۔
بشریٰ عمران کو بابا فریدؒ کے وسیلے سے روحانی دنیا میں وہ درجہ حاصل ہوگیا ہے کہ وہ مستجاب الدعوات بن گئی ہیں۔ احسن جمیل اقبال کے نانا بھی ولی اللہ تھے احسن جمیل کو جگر کی بیماری ہوئی تو جگر کی تبدیلی کے لئے امریکہ میں پورا ایک سال مقیم رہے، مگر ویٹنگ لسٹ بہت لمبی تھی۔ ایک روز بشریٰ بی بی سے بات ہوئی تو احسن جمیل نے بتایا کہ فہرست بہت لمبی ہے دعا کریں۔ بی بی بشریٰ عمران نے دوسرے ہی دن جوابی فون کیا اور کہا کہ حضرت فاطمہؓ سے درخواست کی ہے اور انہوں نے آپ کے لئے دعا قبول کرلی ہے۔ احسن جمیل اقبال کے بقول دوسرے ہی دن انہیں فاطمہ نامی خاتون نے فون کر کے کہا فوراً اسپتال پہنچیں آپ کا جگر ٹرانسپلانٹ کرنا ہے۔ احسن جمیل اقبال اسے حسن اتفاق سمجھنے کو تیار نہیں اور نہ ہی روحانی دنیا کا کوئی اور شخص۔ اسے ہی تو کرامت کہتے ہیں۔
کوئی مانے نہ مانے، مادیت پرست یقین کریں نہ کریں۔ پاکستان نشاۃ ثانیہ کے دور میں داخل ہو چکا ہے اب روحانیت پاکستان کے حالات بدل دےگی

 ...

Wednesday, September 12, 2018

اسم اعظم ہے ’حلال'

جب میں اپنے استاد (شیخ)کے ساتھ تھاتو میرے استاد نے مجھے مزدوری پر لگا دیا میں بحری جہازوں میں لوڈنگ ان لوڈنگ کرتا تھا
میں سارے دن کی محنت کے بعد جتنے پیسے کماتا تھا،میرا استاد ان میں سے دو وقت کے کھانے کی رقم رکھ کر میری باقی کمائی خیرات کر دیتا تھا،میں نے ان سے ایک دن اس حکمت کی وجہ پوچھی ،وہ مسکرا کر بولے ’’تم گیارہ مہینے کام کرو،اس کے بعد تمہیں اس کا جواب دوںگا‘

’’میں گیارہ ماہ لوڈنگ ان لوڈنگ کرتا رہا ،کام مکمل ہوگیا تو استاد نے کہا،’’تم آج مزدوری کے لیےجائو ،کام شروع ہوجائے تو تم جھوٹ موٹ کے بیمار پڑجانا،سارادن کام کو ہاتھ نہ لگانا ،شام کو اپنا معاوضہ لینا اور واپس آجانا‘‘۔
میں نے شیخ کے حکم پر عمل کیا،سارادن پیٹ میں درد کا بہانہ بناکر گودی پر لیٹا رہا،شام کو معاوضہ لیا اور استاد کے پاس آگیا،استاد نے فرمایا ’’تم اب دو وقت کے کھانے کے پیسے رکھ کر باقی رقم خیرات کر دو‘‘آپ یقین کریں وہ گیارہ ماہ میں پہلا دن تھا ، جب میرا دل خیرات کرنے کو نہیں چاہ رہا تھا ،میں نے اس دن خوب سیر ہو کر کھاناکھایا لیکن میری بھوک ختم نہیں ہوئی ،میں نے اس رات پہلی بار اپنے کمرے کی کنڈی لگائی اورگھوڑے بیچ کر سوگیا لیکن میری نیند مکمل نہیں ہوئی مجھے اگلے دن اپنے جسم سے بو آئی ، پہلی مرتبہ اپنے کپڑوںپر پرفیوم لگانا پڑا اور ،مجھے پہلی مرتبہ نماز میں لذت محسوس نہیں ہوئی،میں نے شیخ کو اپنی ساری کیفیت بتائی تو وہ ہنس کر بولے،’’بیٹا یہ حرام کاکمال ہے، حرام آپ کی زندگی کی تمام نعمتوں کا جو ہر اڑا دیتا ہے، آپ انسان سے جانور بن جاتے ہیں۔حرام ہمیشہ آپ کی بھوک بڑھادیتا ہے،یہ آپ کی نیند میں اضافہ کرتا ہے ،یہ آپ کے جسم میں بو پیدا کرتا ہے،یہ آپ کا دل تنگ کردیتا ہے،یہ آپ کی سوچ کو چھوٹا کردیتا ہےاور یہ آپ کی روح سے سکون کھینچ لیتا ہے آپ کو آج ایک دن کا حرام 40 دن ستائے گا،آپ ان دنوں جھوٹ کی طرف بھی مائل ہوںگے،آپ غیبت بھی کریںگے،آپ کے دل میں لالچ بھی آئے گا،آپ دوسرے کو دھوکا بھی دیں گے،اور آپ کے اندر امیر بننے کو خواہش بھی پیدا ہوگی۔میں ڈرگیا۔میں نے استاد سے پوچھا،’’میں اگر حرام کے ان برے اثرات سے بچنا چاہوں تو مجھے کیا کرنا پڑے گا ‘‘وہ بولے ،’’ روزہ رکھواور خاموشی اختیار کرو،یہ دونوں تمیںاندر سے پاک کردیں گے۔
میں نے چالیس سال کی ریاضت کے بعد جو سیکھا،وہ میں تمہیں بتا دیتا ہوں،یہ کائنات ایک صندوق ہے،اس صدوق پر اسرار کا موٹا تالا پڑاہے،یہ تالا ایک اسم اعظم سے کھلتاہے’’اور وہ اسم اعظم ہے ’حلال‘ ،آپ زندگی میںحلال بڑھاتے جائو،کائنات کا صندوق کھلتا چلا جائے گا۔میں نے عرض کیا،’’اور حرام کی پہچان کیا ہے؟‘‘
وہ بولے’’ دنیا کی ہر چیز جسے دیکھنے ،سننے ،چکھنے اور چھونے کے بعد آپ کے دل میں ،لالچ پیدا ہوجائے وہ حرام ہے،آپ اس حرام سے بچو،یہ آپ کے وجود کو قبر ستان بنادے گا،یہ آپ کو اندر سے اُجاڑ دے گا،تباہ کر دےگا،یہ آپ کو بے جوہر کردے گا،بےقیمت کردے گا۔اپنے گھر میں اپنے پڑوس میں اور پوری دنیا میں،پھر معاشرے میں آپ کی کوئی اہمیت ہی نہ رہے گی،اور آپ کےچہرے کی رونق ختم ہوجائے گی

Friday, September 07, 2018

download app


Wednesday, September 05, 2018

کمر کی چوڑائی کم کرنے کے لیے نو ہدایات


ورزش
پیدل چلنا ایک بہترین ورزش ہے۔ اس سے نا صرف کھایا پیا اچھی طرح ہضم ہو جاتا ہے بلکہ وزن بھی قابو میں رہتا ہے۔ اگر آپ ورزش نہیں کرتے اور محض غذائی احتیاط سے وزن گھٹانے کی فکر میں ہیں تو اس کے نتیجے میں آپ بے شک جسم تو گھٹا لیں گے لیکن لٹکا لٹکا گوشت، بے جان جسم، چہرے پر وقت سے پہلے جھریاں، آپ کا مقدر بن جائیں گی جبکہ پندرہ منٹ یا آدھا گھنٹہ روزانہ ہلکی پھلکی چہل قدمی آپ کے ڈھیلے ہوتے ہوئے عضلات کو برقرار رکھے گی۔

مٹھاس کو خدا حافظ
شکر اور اس سے بنی اشیا کا استعمال بند کرنا اگرچہ مشکل ہے لیکن اس سے پرہیز بہت ضروری ہے۔ سافٹ ڈرنکس بھی انہی میں شامل ہیں، جن میں وافر مقدار میں شکر پائی جاتی ہے۔ دوسری جانب شکر والے مشروبات میں تیل بھی موجود ہوتا ہے، جو پیٹ اور رانوں سمیت جسم میں کئی مقامات پر چربی بڑھاتا ہے۔
مسالوں کا مناسب استعمال
برصغیر پاک وہند کے مسالے جادوئی خواص رکھتے ہیں۔ دارچینی بلڈ پریشر اور شوگر میں مفید ہے تو ہلدی اینٹی آکسیڈنٹ اجزاء سے بھرپور ہے۔ کالی مرچ، دھنیا، ادرک اور میتھی کے فائدے بھی اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے، ان سب کا مناسب استعمال آپ کے خون میں شکر کی مقدار اور موٹاپے کو کنٹرول میں رکھتا ہے۔
خوراک پر کنٹرول کے دوران ورزش جاری رکھنی چاہیے اور اس میں وقتاً فوقتاً اضافہ کرنا بہتر ہے، اس طرح نا صرف وزن میں کمی ہو گی بلکہ جتنا وزن کم کیا جائے گا، اسے قائم بھی رکھا جا سکے گا۔ موٹاپے کا علاج دواؤں کے ذریعے کچھ خاص کارگر ثابت نہیں ہوتا۔ موٹاپے کو کم کرنے کے لیے عادات میں نظم و ضبط خصوصاً خوراک پر کنٹرول کرنا لازمی ہے اور یہ انسان کو خود کرنا پڑتا ہے۔
نہار منہ لہسن کا استعمال
ہر صبح دیسی لہسن کے ایک یا دو جوّے کھانا بہت مفید ہوتا ہے۔ اگر لہسن کا جوّا چھیل کر اسے چمچے سے پیس کر کھایا جائے اورساتھ ہی اس پر لیموں کا پانی پی لیا جائے تو ایک جانب تو خون کی روانی بہتر ہوتی ہے اور دوسری جانب پیٹ کی چربی کم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
گوشت کھاتے رہیں
پیٹ کم کرنے کے لیے مکمل سبزی خور بننا درست نہیں کیونکہ گوشت میں موجود کچھ اہم اجزاء کا متبادل بھی صرف گوشت ہی ہے۔ اس لیے مرغی اور مچھلی کا استعمال زیادہ مناسب رہے گا۔
تازہ سبزیوں اور پھلوں کا استعمال
سبزیوں اور پھلوں کا استعمال بڑھانے سے پورے جسم کو فائدہ ہوتاہے، اس لیے ہر موسم کی سبزی اور پھل کو اپنی خوراک کا حصہ بنایئے۔ ان میں موجود وٹامن، معدنیات اور اینٹی آکسیڈنٹس آپ کو تروتازہ رکھتے ہوئے غذا کی کمی کو پورا کرتے ہیں اور روغنی غذاؤں سے دور رہ کر آپ اسمارٹ رہیں گے۔
سفید چاول سے اجتناب
سفید چاول کا استعمال کم کردیجئے، اس کی جگہ بھورا (براؤن)چاول زیادہ مفید رہے گا۔ اس کے علاوہ براؤن بریڈ، جو، اور دلیہ وغیرہ کو اپنی غذا کا حصہ بنائیے، جس سے فائبر کی کمی دور ہوگی اور دوسری جانب چربی گھلانے میں بھی مدد ملے گی۔
دن کی ابتداء لیموں کے رس سے
اپنے دن کی شروعات لیموں کے رس سے کیجئے، ایک گلاس نیم گرم پانی میں لیموں کا رس شامل کرکے چٹکی بھر نمک ڈالیے اور پی جائیے، اس کا روزانہ استعمال نا صرف آپ کے جسمانی افعال کو بہتر رکھتا ہے بلکہ بڑھے پیٹ کو رفتہ رفتہ کم بھی کرتا ہے۔
پانی کا زیادہ استعمال
اگر آپ کمر کی چوڑائی کم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو زیادہ پانی پینا بھی اس کا ایک بہترین ٹوٹکا ہے، پانی خون میں شامل ہوکر سالماتی چربی کوگھلاتا ہے جب کہ زیادہ پانی پینے سے بدن کے زہریلے مرکبات خارج ہوتے رہتے ہیں۔

پیٹ پر چربی یا توند کا حل


پیٹ پر چربی بڑھنا یا توند نکل آنا ایک ایسا مسئلہ ہے، جو زندگی کو خطرے میں بھی ڈال سکتا ہے۔
یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو صرف دیکھنے میں ہی خراب معلوم ہوتی ہو بلکہ یہ آپ کی صحت کے لیے بھی خطرے کا ایک اشارہ ہے۔ 
پسلیوں کے آس پاس کی جلد ایک انچ سے زیادہ کھچنے لگے تو ہم اسے ’بیلی فیٹ‘ یا پیٹ کی چربی کہتے ہیں جو جلد کے نیچے ہی ہوتی ہے۔ یہ ہمارے اندرونی اعضا، جگر اور آنتوں کے آس پاس بھی جمع ہو جاتی ہے۔ پیٹ کے اہم اندرونی اعضا کے آس پاس جمع ہونے والی چربی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ 
جلد کی چربی کے مقابلے میں آنت پر چربی زیادہ تیزی سے بنتی ہے اور اسی رفتار سے کم بھی ہوتی ہے۔ جب وزن بڑھتا ہے تو آنت پر سب سے پہلے چربی جمع ہوتی ہے لیکن صحت کے لیے یہ سب سے زیادہ خطرناک تصور کی جاتی ہے، تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ اس کو کم کرنا بھی بہت مشکل نہیں ہے۔
تو پھر ایسا کیا کریں جو ہمیں مشکل میں بھی نہ ڈالے اور ہم تھوڑی سی تبدیلی اپنی زندگیوں میں لاکر زیادہ مثبت نتائج حاصل کرسکیں۔ یہاں ہم آپ کو وہ آسان طریقے بتائیں گے، جن پر عمل کرکے آپ اپنے مقصد کو حاصل کرسکتے ہیں اور اسمارٹ نظر آسکتے ہیں
تو پھر ایسا کیا کریں

Tuesday, September 04, 2018

گڑہی خدا بخش میں کون کون دفن ہیں۔


گڑہی خدا بخش میں،ذوالفقار علی بھٹو کی ہمشیرہ ملک جہاں بھی دفن ہیں۔

 ذوالفقار علی بھٹو کی قبر کے دائیں جانب قدرے فاصلے پران کے صاحب زادے شاہنواز بھٹو کو بھی سپر دخاک کیا گیا ہے۔
میر مرتضیٰ بھٹوکوشاہنواز بھٹو کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔ گڑہی خدا بخش کے اس قبرستان میںدسمبر 2007 ء کو ایک اور 
عظیم شخصیت کی قبر کااضافہ ہو ا۔
 شہید بینظیر بھٹو کی شہادت سے قبل بھی شہید بھٹو کے مزار پر روزانہ متعدد عقیدت حاضری دیتے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقعے پر 4اپریل آنے سے چند دن قبل ہی وہاں چہل پہل شروع ہوجاتی ہے، اسٹالز لگائے جاتے ہیں، عارضی ہوٹل بھی قائم کیے جاتے ہیں،لیکن اگروہاں مستقل طور پر ہوٹلوں کا قیام عمل میں آجائے، تو زائرین دور سے آنے والوں کو بھی آسانی ہوجائے گی۔گڑھی خدا بخش کا یہ قبرستان کیوں کہ اب گڑھی خدا بخش کا تاریخی قبرستان، ایک ورثے کی 
صورت اختیار کرچکا ہے

 گڑھی خدا بخش‘‘ کا تاریخی قبرستانکیا ہے

گڑہی خدا بخش میں ذوالفقار علی بھٹو کامقبرہ


بتدامیں بھٹو خاندان کا آبائی قبرستان تقریباً ایک ہزار گز اراضی پر مشتمل تھا۔ بھٹو خاندان سے عقیدت کی وجہ سے روزانہ کئی افراد مقبرے پر جاتے ہیں،بالخصوص ان کی برسی اور سالگرہ کے مواقع پر یہ تعداد بہت بڑھ جاتی ہے۔
گڑہی خدا بخش میں دوسرا مقبرہ ذوالفقار علی بھٹو کا تعمیر کیا گیاتھا، جس کا خاکہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے منظور کیاتھا ۔ محترمہ کی خواہش کے مطابق جب مقبرہ بنانے کا کام شروع کیاگیا،تو ابتدائی نقشے سے وہ مطمئن نہیں تھیں۔ وہ یہاں ایک میوزیم اور لائبریری وغیرہ بھی قائم کرنا چاہتی تھیں۔ لہٰذا بھٹو شہید کے مقبرے کی تعمیر کے سلسلے میں ان ہی ماہرین سے 
رجوع کیا گیا، جنہوں نے پہلے سر شاہ نواز بھٹوکا مقبرہ تعمیر کیا تھا ، 

گڑہی خدا بخش میں کون کون دفن  ہیں۔
انہی کے مقبرے کی طرح وہاں بھی بارہ دری تعمیر کی گئی۔ یہ بارہ دری مربع شکل میں 14فیٹ لمبی اور 14فیٹ چوڑی ہے، جب کہ اس کی اونچائی گیارہ فیٹ ہے۔ اسے بنانے میں ایک خاص قسم کا مہنگا پتھر وہائٹ ماربل استعمال کیا گیا ہے۔اس لحاظ سے شہید ذوالفقار علی بھٹو کا مقبرہ فن تعمیرات کا ایک نادر و نایاب نمونہ بھی ہے۔ یہ مقبرہ 3 برس کی مدت میں مکمل ہوا، پتھروں کی کٹائی اور پالش کا کچھ کام کراچی اور کچھ گڑہی خدا بخش میںمکمل کیا گیا،بعد ازاں اس کی فٹنگ کا مرحلہ بھی خاصا طویل تھا،جو تین ماہ کی لگا تار محنت کے بعد اپنے اختتام کو پہنچا۔

گڑھی خدا بخش‘‘ کا تاریخی قبرستانکیا ہے
ذوالفقار علی بھٹو کی قبرچار حصوں پر مشتمل ہے، پہلا حصہ سادے ماربل سے بنا ہوا ہے، جب کہ دوسرے حصہ، جو تقریباً چھ انچ لمبا ہے ، اس پر سنگ تراش نے ہاتھ سے پھول پتیاں نہایت خوب صورتی سے بنائی ہیں، جسے سنگ تراشی کی زبان میں ’’غلطہ‘‘ کہتےہیں۔ پھول پتیوں کے غلطے کے بعد تیسرا حصہ صرف پتوںکی بناوٹ کا ہے ، جس میں پھول نہیں بنے ہوئے۔ یہ سلسلہ بھی ایک فیٹ طویل ہے،جب کہ اوپری اور آخری حصے پر تقریباً ایک فیٹ پر آیت الکرسی ابھری ہوئی ہے۔ قبر کا ڈیزائن سید محبوب علی نے خود ترتیب دیا تھا۔

گڑھی خدا بخش‘‘ کا تاریخی قبرستان



3 اپریل 1979سے قبل گڑھی خدا بخش بھٹو، گائوں میں واقع بھٹو خاندان کے آبائی قبرستان کے بارے میں زیادہ لوگ نہیں جانتے تھے،جب سابق وزیر اعظم پاکستان، ذوالفقار علی بھٹو کو وہاں دفنا یا گیا، تو گویا اس قبرستان کو ملک گیر شہرت حاصل ہو گئی۔ ابتدا میں یہ قبرستان ایک قدیم مسجد کے پہلو میں قائم تھا، 
بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں قبرستان کے قریب ایک نئی مسجد تعمیر کرائی ، وہ باقاعدگی سے ہر عید کی نماز اسی مسجد میں ادا کرتے تھے ۔’’گڑہی خدا بخش بھٹو ‘‘پانچ ، چھ ہزار کچے پکے مکانات پر مبنی ایک گائوں ہے،جو ذوالفقار علی بھٹو کے دادا کے نام سے منسوب ہے۔

گڑہی خدا بخش میں ذوالفقار علی بھٹو کامقبرہ
ذوالفقار علی بھٹو نے جب اپنے والد کی وفات کے بعد ان کی یاد میں مقبرہ بنانے کا فیصلہ کیا ، تو اس وقت کے معروف و ماہر سنگ تراش ، سید مہتاب علی کو اس کام کی ذمے داری دی گئی تھی، جن کا خاندان تقسیم ہند سے قبل بھی اس کام کا ماہر سمجھا جاتا تھا، ان کے کزن سید نواب علی مرحوم کو ان کے اعلیٰ کام کی بہ دولت ملکہ ٔ و کٹوریہ نے تعریفی سند سے بھی نوازا تھا۔ 
اسی طرح گڑہی خدا بخش بھٹو کے کچے پکے قبرستان میں ماہرین کی نگرانی میں پہلا مقبرہ سر شاہ نواز بھٹو کا تعمیر کر ایا گیا۔ ان کے مقبرے کی خوب صورتی ،دراصل وہ بارہ دری ہے ، جسے نہایت نفاست سے بنایا گیا تھا ،اس زمانے میں مشینوں سے زیادہ ہاتھ کا کام ہوتا تھا،جو زیادہ محنت طلب تھا، مگر یہ کام آج بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

مرزا کاظم رضا بیگ

ملک کے 13ویں نومنتخب صدر ڈاکٹر عارف علوی ۔۔۔۔ایک مختصر تعارف



اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 13ویں صدر عارف علوی پیشے کے اعتبار سے دندان ساز ہیں جو 29 جولائی 1949ء کو کراچی میں پیدا ہوئے اور اپنے زمانہ طالب علمی سے ہی سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

انہوں نے ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے گھرانے میں آنکھ کھولی۔ انکا شمار ملک کے معروف ترین دانتوں کے معالجین میں کیا جاتا ہے۔ امریکہ کی میشیگن یونیورسٹی سے فارغ الاتحصیل عارف علوی پاکستان ڈینٹل ایسویس ایشن سے وابستہ رہے اور بطور صدر ایشیاء پیسیفک ڈینٹل فاؤنڈیشن میں بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ 69 سالہ عارف علوی پاکستان تحریک انصاف کے بنیادی ممبر ہیں اور انہوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز پولنگ ایجنٹ کے طور پر کیا۔1979 میں انہوں نے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر کراچی سے صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 89 سے انتخاب لڑا لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ڈاکٹر عارف علوی 1996 میں تحریک انصاف کا حصہ بنے اور اس کے بانی اراکین میں شمار ہوتے ہیں،

 وہ اُسی سال پی ٹی آئی کی سینٹرل ایگزیکٹو کونسل کے ایک سال کے لیے رکن بنے جس کے بعد 1997ء میں انہیں پی ٹی آئی سندھ کا صدر بنایا گیا۔ عارف علوی پاکستان تحریک انصاف کے 2006ء سے 2013ء تک سیکرٹری جنرل رہے، وہ پہلی بار پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر عام انتخابات 2013ء میں حلقہ این اے-250 (کراچی-12) سے 77 ہزار سے زائد ووٹ لے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے 

۔ 2013ء کے انتخابات میں عارف علوی واحد پی ٹی آئی امیدوار تھے جو سندھ سے منتخب ہوئے، 2016ء میں وہ پی ٹی آئی سندھ کے صدر اور 2018 کے عام انتخابات میں این اے247 سے ایک مرتبہ پھر سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔2016 میں عارف علوی کو پارٹی کا صوبائی صدر نامزد کیا گیا اور 25 جولائی کے انتخابات میں عارف علوی دوسری مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے جبکہ 18 اگست کو پارٹی قیادت نے انہیں صدارتی امیدوار نامزد کردیا۔

18ویں ترمیم کے بعد صدر کے اختیارات پر نظر



طورِ آئینی سربراہ صدرِ پاکستان کی چند مواقع پر اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔ جب قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے یا اپنی آئینی مدت مکمل کر لے تو صدر ہی اپنی نگرانی میں عام انتخابات منعقد کراتا ہے۔
٭صدر کسی بھی ایسے پورے کے پورے قانون کو یا اُس کی چند شقوں کو نظرِ ثانی کے لیے واپس پارلیمنٹ کو بھیج سکتا ہے جو اُس کے پاس پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد دستخط کے لیے آیا ہو۔
٭تمام وفاقی جامعات کے چانسلر صدرِ مملکت ہی ہوتا ہے۔
٭صدرِ پاکستان پارلیمان کے آئینی سال کے آغاز پر اُس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتا ہے اور ریاست کے رہنما اصول کی یادہانی کرائی جاتی ہے۔
٭صدرِ پاکستان کے پاس سزا یافتہ مجرمان کو معاف کرنے یا سزاؤں کو کم اور منسوخ کرنے کا اختیار ہے۔
٭ایک عام تاثر ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد صدر قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا حق کھو چکے ہیں جبکہ یہ حق اب بھی اُن ہی کے پاس ہے البتہ اب وہ یہ کام ازخود نہیں بلکہ وزیرِاعظم کی درخواست پر ہی کر سکتے ہیں۔ اب بھی اسمبلی صدرِ پاکستان کے حکم سے ہی تحلیل ہوتی ہے۔
٭صدرِ پاکستان مسلح افواج کے علامتی سپہ سالارِ اعلیٰ ہیں۔ 18ویں ترمیم کے بعد صدر مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری وزیرِاعظم کے مشورے کے مطابق کرنے کے پابند ہیں اور وہ افواج سے متعلق براہِ راست کوئی احکامات جاری نہیں کر سکتے۔

Text Widget