موٹاپے سے پریشان افراد آسانی سے اپنے وزن میں کمی لا سکتے ہیں، وزرش، کم
خوراک، پوری نیند
اور خوش گوار زندگی آپ کو موٹاپے سے نجات دلاسکتی ہے۔
موٹاپا
صحت کا قاتل اور شخصیت کا دشمن ہوتا ہے، اچھا خاصا انسان موٹاپے کی وجہ سے چلتا
پھرتا لطیفہ معلوم ہوتاہے، موٹاپے کے شکار خواتین و حضرات کسی بھی محفل کو لطف
اندوز نہیں کرتے بلکہ محفل ان سے لطف اندوز ہوتی ہے اس لیے موٹے لوگوں کا حلقہ
احباب بہت مختصر ہوتا ہے.
اکثر اوقات موٹے افراد اپنے بے ہنگم
وجود کی بنا پر گھر سے باہر نکلنے سے کتراتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ باہر نکلنے پر
انہیں مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے لہذا وہ راہ فراراختیار کرتے ہیں مگر اب موٹے
افراد اپنی اس شرمندگی سے بآسانی نجات پا سکتے ہیں۔
حقیق کے
مطابق زیادہ تر وہ لوگ موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں جو کسی نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوتے
ہیں. محققین کا کہنا ہے کہ اکثر ذہنی پریشانی میں مبتلا افراد اپنی پریشانی کو
زیادہ غذا کے استعمال سے ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ان کی یہ عادت انہیں مزید
موٹاپے کا شکار کرتی ہے۔
محققین
کے مطابق وہ افراد جو ذہنی خلفشار کا شکار ہوتے ہیں ان کے لیے بہتر ہے کہ وہ
روزانہ علی الصباح چہل قدمی اور متوازن غذا کا استعمال کریں۔
تحقیق
میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سخت ورزش موٹاپے میں کمی لانے کی کوشش میں زیادہ
مددگار ثابت نہیں ہوتی، تحقیق کو ثابت کرنے کے لیے محقیقین نے موٹاپے کے
شکار 38 مرد اور خواتین کو دو گروپ میں تقسیم کیا۔
ایک
گروپ کو ہفتے میں 5 بار ورزش اور خوراک کی مقدار میں بھی کمی لانے کی ہدایت کی
جبکہ دوسرے گروپ کو سخت ورزش کے ساتھ متوازن غذا کے استعمال کا کہا گیا۔ اس کے
ساتھ دونوں گروپس کے افراد کو زندگی کے ہر لمحے کو انجوائے کرنے، دوستوں کی
محفلوں میں جانے اور ہلکا میوزک سننے کی بھی ہدایت کی۔
محققین
کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان افراد سے کہا کہ وہ پریشانی کا سبب بننے والے عوامل سے
مکمل دوری اختیار کریں۔
محققینکے
مطابق جب تین ہفتوں کے بعد ان افراد کاجائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ دونوں گروپ
کے جسمانی وزن میں یکساں کمی آئی ہے اس کے ساتھ انسولین کی حساسیت اور میٹابولزم
میں بہتر ی بھی دونوں گروپس کے افراد میں برابرہے۔
محققین
کا کہنا تھا کہ اس تحیقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ بلا ناغہ ورزش، کم خوراک ، پوری نیند
اور خوش گوار زندگی جسمانی وزن میں کمی لانے کا سبب بنتی ہے تاہم اس کے لیے غذائی
مقدار میں کمی لانا بھی بہت ضروری ہے
0 comments:
Post a Comment